دہشتگرد انسانیت کے دشمن اور اسلام کے غدار

اسلام میں جب حالت جنگ میں موت کے ڈر سے کلمہ پڑھنے والے دشمن کو بھی امان حاصل ہے

تو کلمہ گو مسلمانوں کو مسجدوں، دفتروں، تعلیمی اداروں اور بازاروں میں قتل کرنا کتنا بڑا جرم ہو گا؟

مرتب: مفتی نور اللہ فاروقی

 اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی کیا اہمیت ہے؟۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو :

عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
( ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2 : 1297، رقم : (3932
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘
فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اقدام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے مرو ی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا يُشِيرُ أَحَدُکُمْ إِلَی أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَحَدُکُمْ لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ، فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ.
( مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن إشارة بالسلاح، 4 : 2020، رقم : (2617
’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘
یہاں اِستعارے کی زبان میں بات کی گئی ہے یعنی ممکن ہے کہ ہتھیار کا اشارہ کرتے ہی وہ شخص طیش میں آجائے اور غصہ میں بے قابو ہو کر اسے چلا دے۔ اس عمل کی مذمت اور قباحت بیان کرنے کے لئے اسے شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے تاکہ لوگ اِسے شیطانی فعل سمجھیں اور اس سے باز رہیں۔ یہی مضمون ایک اور حدیث میں اِس طرح بیان ہوا ہے :
مَنْ أَشَارَ إِلَی أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِکَةَ تَلْعَنُهُ حَتَّی يَدَعَهُ، وَإِنْ کَانَ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ.
) مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن إشارة بالسلاح، 4 : 2020، رقم : (2616
’’جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی(ہی کیوں نہ) ہو۔‘‘
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نَهَی رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يُتَعَاطَی السَّيْفُ مَسْلُولًا.
( ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النهيعن تعاطي السيف مسلولا، 4 : 464، رقم : (2163
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا۔‘‘
ننگی تلوار کے لینے دینے میں جہاں زخمی ہونے کا احتمال ہوتا ہے وہاں اسلحہ کی نمائش سے اشتعال انگیزی کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ اسلام کے دین خیر و عافیت اور مذہب امن و سلامتی ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھلے بندوں اسلحہ کی نمائش پر پابندی لگا دی، تاکہ نہ تو اسلحہ کی دوڑ شروع ہو اور نہ ہی اس سے کسی کو threat کیا جا سکے۔ مذکورہ حدیث میں لفظِ مَسْلُول اِس اَمر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ریاست کے جن اداروں کے لیے اسلحہ ناگزیر ہو وہ بھی اس کو غلط استعمال سے بچانے کے لیے foolproof security کے انتظامات کریں۔درج بالا بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب اسلحہ کی نمائش، دکھاوا اور دوسروں کی طرف اس سے اشارہ کرنا سخت منع ہے تو اس کے بل بوتے پر ایک مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے آتشیں گولہ و بارود سے مخلوق خدا کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا گناہ اور ظلم ہوگا۔اسلام نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ رنگ و نسل تمام انسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔ اﷲ عزوجل نے تکریم انسانیت کے حوالے سے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.المائدة، 5 : 32
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں انسانی جان کی حرمت کا مطلقاً ذکر کیا گیا ہے جس میں عورت یا مرد، چھوٹے بڑے، امیر و غریب حتی کہ مسلم اور غیر مسلم کسی کی تخصیص نہیں کی گئی۔ مدعا یہ ہے کہ قرآن نے کسی بھی انسان کو بلاوجہ قتل کرنے کی نہ صرف سخت ممانعت فرمائی ہے بلکہ اسے پوری انسانیت کا قتل ٹھہرایا ہے۔ جہاں تک قانون قصاص وغیرہ میں قتل کی سزا، سزائے موت (capital punishment) ہے، تو وہ انسانی خون ہی کی حرمت و حفاظت کے لئے مقرر کی گئی ہے۔اسلام دورانِ جنگ اسلامی لشکر کو احتیاط کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ دنیا کی تمام اقوام کے ہاں یہ قول مشہور ہے کہ جنگ اور محبت میں ہرچیز جائز ہوتی ہے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت سے ہمیں جنگ کے اضطرابی اور حساس لمحات میں بھی احتیاط اور عدل سے کام لینے کا سبق ملتا ہے۔ درج ذیل حدیث مبارکہ میں ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ قتل کے خوف سے ہی سہی، جب ایک شخص نے کلمہ پڑھ کر اظہار اسلام کر دیا تو اس کے قتل پر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت اظہار ناراضگی فرمایا، چہ جائے کہ کلمہ گو مسلمان اور اہل علم حضرات صرف اس لیے قتل کر دیے جائیں کہ وہ باغی گروہ کے انتہاء پسندانہ نظریات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ حدیث ملاحظہ کریں
حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :
بَعَثَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ، فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَلَمَّا غَشِيْنَا قَالَ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. فَکَفَّ عَنْهُ الأَنْصَارِيُّ، وَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي حَتَّی قَتَلْتُهُ. قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْنَا، بَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لِي : يَا أُسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا. قَالَ : فَقَالَ : أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : فَمَا زَالَ يُکَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّی تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْيَوْمِ.

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہاد کے لیے مقام حرقہ کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے۔ ہم صبح وہاں پہنچ گئے اور (شدید لڑائی کے بعد) انہیں شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری صحابی نے مل کر اس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا، جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. انصاری تو (اس کی زبان سے) کلمہ سن کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش آج سے پہلے میں اِسلام نہ لایا ہوتا۔‘‘
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث ان الفاظ سے روایت کی ہے :
فَدَعَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ : لِمَ قَتَلْتَهُ؟ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَوْجَعَ فِي الْمُسْلِمِيْنَ، وَقَتَلَ فُلَانًا وَفُلَانًا، وَسَمَّی لَهُ نَفَرًا. وَإِنِّي حَمَلْتُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَی السَّيْفَ، قَالَ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَقَتَلْتَهُ؟ قَالَ : نَعَمْ : قَالَ : فَکَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ إِذَا جَاءَ تْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اسْتَغْفِرْ لِي. قَالَ : وَکَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ إِذَا جَاءَ تْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ : فَجَعَلَ لَا يَزِيْدُهُ عَلَی أَنْ يَقُوْلَ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقيَامَةِ؟
(مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال : لَا إِله إلا اﷲ، 1 : 97، رقم : 94 – (97
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر دریافت فرمایا : تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اس نے مسلمانوں کو تکلیف دی۔ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نام لے کر بتایا کہ اس نے فلاں فلاں کو شہید کیا تھا۔ میں نے اس پر حملہ کیا جب اس نے تلوار دیکھی تو فورًا کہا : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اسے قتل کر دیا؟ عرض کیا : جی حضور! فرمایا : جب روزِ قیامت لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے لئے استغفار کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : جب روزِ قیامت لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار یہی کلمات دہراتے رہے کہ جب قیامت کے دن لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟‘‘
حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قُلْتُ : يَا رَسُولَ اﷲِ، أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنْ الْکُفَّارِ فَقَاتَلَنِي فَضَرَبَ إِحْدَی يَدَيَّ بِالسَّيْفِ، فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ : أَسْلَمْتُ لِلّٰهِ، أَفَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اﷲِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقْتُلْهُ، قَالَ : فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّهُ قَدْ قَطَعَ يَدِي، ثُمَّ قَالَ ذَلِکَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَهَا أَفَأَقْتُلُهُ؟ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّکَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ کَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ.
( بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب شهود الملائکة بدراً، 4 : 1474، الرقم : (3794
’’یا رسول اللہ! یہ فرمائیے کہ اگر (میدان جنگ میں) کسی کافر سے میرا مقابلہ ہو اور وہ میرا ہاتھ کاٹ ڈالے اور پھر جب وہ میرے حملہ کی زد میں آئے تو ایک درخت کی پناہ میں آکر کہہ دے : أَسْلَمْتُ لِلّٰهِ (میں اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا)، تو کیا میں اس شخص کو اس کے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس کو قتل نہیں کر سکتے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد کلمہ پڑھا ہے تو کیا میں اس کو قتل نہیں کر سکتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس کو قتل نہیں کر سکتے، اگر تم نے اس کو قتل کر دیا تو وہ اس درجہ پر ہوگا جس پر تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے (یعنی حق پر) اور تم اس درجہ پر ہوگے جس درجہ پر وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا (یعنی کفر پر)۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *