11 جنوری 2025ء کوپاک افغان سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز کی ایک بڑی کامیابی نے ایک بار پھر اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ ہمسایہ ملک افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہورہی ہے۔اس آپریشن میں سکیورٹی فورسز نے کامیاب آپریشن کرتے ہوئے افغانستان فرار ہوتے ہوئے ایک افغان دہشتگرد کوجہنم واصل کیا۔جہنم واصل کیے جانے والے اس دہشتگردکی شناخت محمدخان ولد حاجی قاسم کے نام سے ہوئی ہے۔48 سالہ دہشتگرد محمد خان عرف محمد قاسم افغان صوبے پکتیکا کا رہائشی تھا، جس سے افغان شناختی کارڈ بھی برآمدبرآمد ہوا۔ دہشتگرد محمد خان عرف قاسم خان افغان خفیہ ایجنسی کیلئے پاکستان میں کام کررہا تھا۔ دہشتگرد محمد خان افغانستان سےاسلحہ اور گولہ بارود پاکستان کے قلعہ سیف اللہ، ژوب اور لورالائی میں دہشت گردوں کو سمگل کرتا تھا۔ سمگل شدہ اسلحہ پاکستان میں دہشتگردانہ حملوں میں استعمال ہوتا تھا۔یہ ایک دہشت گرد تھا نجانے افغانستان سے کتنے دہشت گرد پاکستان آتے یا آرہے ہیں، ان میں سے کئی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت افغانستان فتنہ خوارج اور دیگر عالمی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ آماجگاہ بنا ہوا ہے ،جہاں سےیہ دہشت گرد افغان عبوری حکومت کی سرپرستی میں پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کووحشت و بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگر بات صرف پاکستان کی ہی کی جائے تواب تک درجنوں نہیں سیکڑوں کی تعداد میں پاکستان پر دہشت گردانہ حملے ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں عام شہری اور سیکورٹی جوان شہید اورہزاروں معذور ہوچکے ہیں ۔ ہر دوسرے حملے کے تانے بانے افغانستان سے ملتے رہے اور پس منظر میں پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اور دیگر عالمی طاقتیں ملوث ہیں۔ پاکستان نے بارہا افغانستان سے اپیل کی کہ اپنی سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال ہونے سے روکے اور اس حوالے سے متعدد بار وعدے بھی ہوئے مگر افغان عبوری حکومت فتنہ خوارج اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو لگام ڈالنے کے بجائے ان کی سرپرستی ہی کرتی نظر آئی۔ افغان سرزمین کو استعمال کرنے کے ٹھوس ثبوتوں پر پاکستان کے حکومتی و فوجی حکام نے بذات خود متعدد بار کابل جاکر افغان حکومت سے پرزور مطالبہ کیا کہ پاکستان کے خلاف سازشوں سے باز رہیں اور اپنی سرزمین کا استعمال روکے۔ جب سے افغان عبوری حکومت نے عنان اقتدار سنبھالی ہے تب سے دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں ہوشربا اضافہ ہوا، اب افغان عبوری حکومت اور بھارت کے مابین جو پیار کی پینگیں چڑھائی جارہی ہیں وہ اس گھناؤنے کھیل کو مزید تقویت دے گی۔اب تک ہونے والی دہشت گردی کے ایسے ایسے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ جن پر نہ تو بھارت کوئی ٹھوس دلائل پیش کرسکا ہے اور نہ آج تک افغان حکومت۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان اٹوٹ رشتے میں بندھے ہیں۔ دونوں ممالک میں مذہبی ہم آہنگی، ثقافتی رسم ورواج اور رہن سہن قدر مشترک ہونے کے علاوہ لازم وملزوم پڑوسی بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بُرے وقت میں پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کے لئے بازو پھیلائے اور دل کھول کر ان کی مدد کی، سہارا دیا۔ 1979ء میں جب روس نے طاقت کے نشے میں افغانستان کو تاراج کرنے کی کوشش کی تو انتہائی نامساعد حالات اور معاشی ابتری کے باوجود پاکستان نے افغان مہاجرین کے لئے اپنی سرحدیں کھول دیں اور کم وبیش 40لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے اور انسان دوستی کی لازوال مثال قائم ہوئی ۔نہ صرف مہاجرین کو خیمہ بستیوں میں تمام تر سہولیات اور آزاد زندگی کے ساتھ رہنے کی جگہ ملی بلکہ پاکستانی عوام نے سیکڑوں افغانوں کو اپنے گھروں میں بھی پناہ دی اور مہمان نوازی کی مثال قائم کردی ۔ یہاں ہمارے افغان بھائیوں کو روزگار، کاروبار اور رشتے داریاں وبرادریاں اور بستیاں قائم کرنے کے بھرپور مواقعے ملے جبکہ دیگر ممالک خصوصاً ایران میں جانے والوں کو صرف کیمپوں تک محدود رکھا گیا اور بھارت جسے آج افغان عبوری حکومت اپنے ماتھے کا جھومر بنانے پر تلی ہوئی ہے اس نے ان مہاجرین کو سر چھپانے کی جگہ کیا دینی تھی سرحد پر ہی ذلیل ورسوا کردیا سوائے چند کے۔پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کی مدد کی اور انہیں پناہ دی بلکہ روسی حملے کے بعد ان کی سرزمین کی حفاظت اور دشمن سے واگزار کرانے کے لئے بے پناہ جانی ومالی قربانی بھی دی یہ پاکستان ہی تو تھا جس کی وجہ سے ہمارے افغان بھائیوں کو ان کی سرزمین واپس ملی اور دنیا کی سپر طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور 1989ء میں افغانستان کو ایک مرتبہ پھر آزادی ملی۔ اگلے 11،12سال کی شورش میں بھی پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لئے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس دوران 40لاکھ کی تعداد میں آنے والے مہاجرین کئی گنا بڑھے۔ انہوں نے پاکستان میں نہ صرف روزگار اور کاروبار جمائے بلکہ پاکستانی گھرانوں میں رشتے ناطے بھی جوڑ لئے۔9/11کے بعد بھی پاکستان نے اپنے برادر اسلامی ملک کو تنہا نہیں چھوڑا اور نہ یہاں سے آنے والے مزید مہاجرین کا راستہ روکا۔قیام امن کی بھی تمام کوششوں میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا۔افغان دھڑوں اورحکمرانوں سمیت عالمی طاقتوں کے نمائندوں کو ایک میز پر بٹھا کر مسئلے کا حل تلاش کرنے کے مواقعے فراہم کئے ۔نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلاء میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ بدقسمتی سے امریکہ و نیٹو فورسز کے انخلاء سے پاکستان کے مسائل اور گمبھیر ہوگئے ۔ وہاں پاکستان کے دشمن عناصر کو پنپنے اور اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع ملا ،انہوں نے وہاں اپنے ٹھکانے اور تربیتی کیمپ جو کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں موجود تھے انہیں مزید استحکام بخشا گیا اسی لئے اب گزشتہ کچھ عرصے سے وہاں سے وہ پاکستان پر حملہ آور ہیں۔مساجد ،مدارس ،مزاروں اور بازاروں کے علاوہ سکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں۔ ہر دہشت گردی کے تانے بانے افغان سرزمین سے ہوتے ہوئے بھارت سے مل رہے ہیں۔ آخر کیوں؟۔ انسان کی فطرت تو احسان کے بدلے احسان ہے۔ نیکی کے بدلے نیکی ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ جس سے افغانستان کے محسن اسلامی ملک پاکستان پر حملے ہورہے ہیں۔
آج یہ سوال پاکستان کے بچے بچے کے ذہن میں مچل رہا ہے کہاکہ افغانستان اور افغان طالبان پاکستان کے خلاف اس قدر کیوں ہیں؟جب اس سوال کو پولیٹیکل سائنس، بین الاقوامی امور ، بالخصوص پاک افغان امور کے ماہرین کے آگے رکھا گیا تو انہوں نے تقریباََ ایک جیسا ہی جواد دیا ، اس سوال کے جواب میں انہوں نے اس کی وجہ احسان فراموشی کو قرار دیا، ان کا ماننا ہے کہ افغانوں کا ڈی این اے ہی احسان فراموشی سے بنا ہوا ہے، آپ ماضی کو چھوڑ دیجیے اور آج کی مثال لیجیے، آج جو لوگ افغان حکومت میں ہیں وہ وہ سبھی پاکستان میں پلے بڑھے انہوں نے پاکستان کے اداروں اور مدارس سے تعلیم حاصل کی لیکن آج یہ سب پاکستان کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اورفتنہ خوارج کے ذریعے پاکستان پر حملے بھی کر رہے ہیں۔ امریکہ نے طالبان سے 2013ءمیں دوحہ میں دفتر کھلوایا تھا، طالبان دس سال دوحہ میں آتے جاتے رہے،انہیں ایک خاص ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا تھا، ان دس برسوں میں امریکیوں نے ان کی تمام کالز بھی ریکارڈ کیں اور ای میل بھی، ان کے فون بھی ہیک ہوئے اور ان کی عادتوں کا مطالعہ بھی کیا گیا چنانچہ دس برس میں امریکہ ان کے تمام رشتے داروں، جائیدادوں اور اکاؤنٹس تک پہنچ گیا اور ان کی عادتیں اور کم زوریاں بھی بھانپ گیا، بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی را بھی اس دوران دوہا میں ان سے رابطے میں رہی، پاکستان صرف ان کے نخرے اٹھاتا رہا جبکہ یہ بھارت اور امریکہ کی گود میں کھیلتے رہے، 2021ءمیں ان کا امریکہ سے ایک معاہدہ ہوا لیکن یہ ایک اوپن ایگریمنٹ تھا جبکہ ایسا محسوس ہوتا ہے ان کا امریکہ کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ بھی ہواتھا۔ اس معاہدے میں فتنہ خوارج یعنی ٹی ٹی پی کو قائم رکھنا اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنا شامل تھا اورافغان طالبان تین برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس کے بدلے انہیں ہر سال چھ بلین ڈالر دیتا ہے۔ افغانستان کا کل بجٹ دو ارب 60 کروڑ ڈالر ہے۔ اتنی چھوٹی سی اکانومی میں چھ ارب ڈالر ہر سال اضافی پمپ کر دیا جاتا ہے۔ یہ رقم افغان طالبان کو کیوں مل رہی ہے اور یہ کس کی جیب میں جاتی ہے؟ ۔ اس پر اقوام متحدہ اور سائیگر کی رپورٹس نے پردہ اٹھا دیا ہے جن میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ یہ رقم افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو دی جارہی ہے ، خود کش بمباروں کی فیملیز پر خرچ کی جارہی ہے۔ صرف امریکہ ہی نہیں بھارت بھی ان دہشت گرد تنظیموں پر بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے تاکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جاسکے۔ اس وقت افغان وزیر دفاع ملایقوب ہیں اور ان کے بھارت اور را کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ افغانستان میں اب ہر دوسرا شخص یہ کہہ رہا ہے بھارت ملا یعقوب کو مسلسل پیسے دے رہا ہے اور ملا یعقوب انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیںدے رہا ہے ، لہٰذا وہ وقت دور نہیں جب بھارت افغانستان میں اشرف غنی کے زمانے کے تمام قونصل خانے کھول لے گا اور کابل اور قندہار میں بیٹھ کر پاکستان کیلئے مزید مسائل پیدا کرے گا۔ واقعتا یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کیلئے تشویشناک ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ افغان حکومت ہوش کے ناخن لے وہ جس آگ کو سلگائے بیٹھے ہیں، اس سے صرف پاکستان ہی کو نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ افغانستان بھی جل جائے گا۔
افغان بھارت گٹھ جوڑخطے میں گھناؤنے کھیل کا پیش خیمہ
