دہشت گرد غلط اور بے بنیاد تاویل کے سہارے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیںجوفتنے کی صورت اختیار کر جاتی ہے
معاشرے کو بد امنی اور فساد سے محفوظ رکھنے کے لئے دہشت گرد باغیوں کے بجائے حکومت کا ساتھ دینا عین اسلامی ہے

مرتب :مولانا زاہد عباسی
بغاوت اور دہشت گردی پرامن معاشرے کے لئے خطرناک ہے اور اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ مسلم حکومت اور مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی کے خلاف مسلح بغاوت اور دہشت گردی کرنے والے لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں کیونکہ کسی بھی ملک و قوم کی قوت و طاقت اور اِستحکام و دوام کا انحصار اجتماعیت اور مرکزیت پر ہوتا ہے۔دہشت گردی، فساد انگیزی کی ایسی شکل ہے جس کی وجہ سے عامۃ الناس اذیت کی موت سے دو چار ہوتے ہیں اور بہت سے خوف و ہراس اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسا فتنہ ہے جو پورے معاشرے کو خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ دہشت گرد چونکہ غلط اور بے بنیاد تاویل کے سہارے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے ان کے یہ جملہ اقدامات فتنے کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان فتنہ گر دہشت گردوں کو انسانیت کا قاتل بلکہ اس سے بھی بڑے گناہ کا مرتکب قرار دیا ہے، سورۃ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ بڑا واضح اور صریح ہے :
وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ
’’اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی زیادہ سخت (جرم) ہے۔‘‘
مسلم ریاست اور اجتماعی نظم کے خلاف مسلح بغاوت اور فتنہ انگیزی کس قدر شدید جرم ہے؟ اِس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْيُصَلَّبُوْا اَوْتُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْامِنَ الاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ(المائدة، 5 : (33
’’بے شک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز راہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یا قید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے‘‘
اِس آیت مبارکہ سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ پرامن معاشرے کو مسلح دہشت گردی کے ذریعے خوف زدہ کرنے والوں کا خاتمہ ریاست کے لیے ضروری ہے خواہ ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
من شهر السلاح في فئة الإسلام وأخاف السبيل، ثم ظفر به وقدر عليه، فإمام المسلمين فيه بالخيار إن شاء قتله وإن شاء صلبه وإن شاء قطع يده ورجله.1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 512. طبری، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 214
’’جس نے مسلمانوں کی آبادی پر ہتھیار اٹھائے اور راستے کو اپنی دہشت گردی کے ذریعے غیر محفوظ بنایا اور اس پر کنٹرول حاصل کرکے لوگوں کا پرامن طریقے سے گزرنا دشوار کر دیا، تو مسلمانوں کے حاکم کو اختیار ہے کہ چاہے اسے قتل کرے، پھانسی دے یا چاہے تو اس کے ہاتھ، پاؤں کاٹ دے (اور یوں ان کی قوت کو کلیتاً ختم کر دے)۔‘‘
امام طبری اور حافظ ابن کثیر نے مزید لکھا ہے کہ سعید بن مسیب، مجاہد، عطاء، حسن بصری، ابراہیم النخعی اور ضحاک نے بھی اسی معنی کو روایت کیا ہے۔
اسی کو امام سیوطی نے بھی ’’الدر المنثور (3 : 68)‘‘ میں روایت کیا ہے۔
امام قرطبی نے ’’الجامع لاحکام القرآن (6 : 148)‘‘ میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک ایسے گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مدینہ منورہ کے باہر دہشت گردی کا ارتکاب کیا، قتل ناحق اور املاک لوٹنے کے اقدامات کیے جس پر انہیں سخت عبرت ناک سزا دی گئی۔اِس آیت سے یہ مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ راہزنی کرنے والوں کو سزائے موت دینا جائز ہے۔ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی لکھتے ہیں :
أجمعوا علی أن المراد بالمحاربين المفسدين فی هذه الآية قطاع الطريق سواء کانوا مسلمين أو من أهل الذمة. واتفقوا علی أن من برز وشهر السلاح مخيفا مغيرا خارج المصر بحيث لا يدرکه الغوث، فهو محارب قاطع للطريق جارية عليه أحکام هذه الآية…. وقال البغوی : المکابرون فی الأمصار داخلون فی حکم هذه الآية.
قاضی ثناء اﷲ، تفسير المظهری، 3 : 86
’’اس پر تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ اس آیت میں محاربین سے مراد فساد بپا کرنے والے راہزن ہیں؛ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، سب کے لئے حکم برابر ہے۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ جو کھل کر ہتھیار اٹھالیں، شہر سے باہر لوگوں کو خوفزدہ کریں اور قتل وغارت گری کریں جہاں کوئی مددگار بھی نہ پہنچ سکے، ایسا شخص دہشت گرد، جنگجو اور راہزن ہے۔ اُس پر اس آیت کے احکام جاری ہوں گے۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ : شہری آبادیوں میں دہشت گردی کرنے والے بھی اس آیت کے حکم میں شامل ہیں۔‘‘
علامہ زمخشری نے اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے :
يُحَارِبُون رسُول اﷲ، ومحاربة المُسْلِمِين فی حکم مُحَارَبَتِه. زمحشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1 : 661
’’ يُحَارِبُون رسُول اﷲِ (یعنی) مسلمانوں کے ساتھ جنگ بپا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرنے کے حکم میں ہے۔‘‘
علامہ ابو حفص حنبلی، علامہ زمخشری کی مذکورہ بالا عبارت تحریر کرنے کے بعد مزید لکھتے ہیں :
أنَّ المقصود أنَّهم يُحَارِبون رَسُول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وإنما ذکر اسْم اﷲ. تبارک وتعالی. تَعْظِيماً وتَفْخِيماً لمن يُحَارَبُ، کقوله تعالی : ﴿إِنَّ الذین يُبَايِعُونَکَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اﷲِ﴾(1) – (2)
(1) الفتح، 48 : 10(2) أبو حفص الحنبلی، اللباب فی علوم الکتاب، 7 : 303
’’مقصد یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرتے ہیں اور (اس آیت میں) اللہ تعالیٰ کا اسم مبارک جنگ کا نشانہ بننے والوں کی عظمت اور قدر و منزلت بڑھانے کے لئے مذکور ہوا ہے جیسا کہ ﴿إِنَّ الذين يُبَايِعُونَکَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اﷲِ﴾ میں بھی یہی انداز بیان اختیار کیا گیا ہے۔‘‘
امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے آیت مذکورہ سے استنباط کرتے ہوئے دہشت گردی کو اﷲ تعالیٰ، اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عام مسلمانوں کے خلاف جنگ کے مترادف قرار دیا ہے :
سمی قاطع الطريق محاربا ﷲ لأن المسافر معتمد علی اﷲ تعالی. فالذی يزيل أمنه محارب لمن اعتمد عليه فی تحصيل الأمن. وأما محاربته لرسوله صلی الله عليه وآله وسلم فإما باعتبار عصيان أمره وإما باعتبار أن الرسول هو الحافظ لطريق المسلمين والخلفاء والملوک بعده نوابه. فإذا قطع الطريق التی تولی حفظها بنفسه ونائبه فقد حاربه. أو هو علی حذف مضاف أي يحاربون عباد اﷲ.
ابن همام، فتح القدير، 5 : 177
’’آیت مذکورہ بالا میں راہزن کو بھی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ جنگ کرنے والا کہا گیا ہے کیونکہ مسافر اﷲ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کئے ہوئے ہوتا ہے۔ اور وہ شخص جو اس کا امن برباد کرتا ہے گویا وہ اس ذات کے ساتھ بر سرپیکار ہوتاہے جس پر وہ مسافر حصولِ امن کی خاطر اعتماد کئے ہوئے تھا اور رہا اس کا رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ برسرِپیکار ہونا تو وہ اس لئے ہے کہ اس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ یا اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے راستوں کے محافظ و نگہبان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء اور مسلمان حکمران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب ہیں۔ پس جب وہ راستہ روکا گیا جس کی حفاظت کا ذمہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اٹھایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائبین یعنی مسلم حکومتوں نے تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کیا گیا۔ یا یہاں عبارت حذفِ مضاف کے ساتھ ہے اور اصل عبارت میں ’’یحاربون عباد اﷲ‘‘ ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا نصوص سے صراحت کے ساتھ ثابت ہوگیا کہ دہشت گرد اللہ تعالیٰ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جملہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بغاوت کا جرم ایک سنگین اور ناقابلِ تلافی جرم کہلاتا ہے۔ دہشت گرد گروہ کے ساتھ جنگ کرنے کے حوالے سے اِمامِ اَعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنی کتاب الفقہ الابسط میں فرماتے ہیں :
فقاتل أهل البغي بالبغي لا بالکفر. وکن مع الفئة العادلة. ولا تکن مع أهل البغي. فإن کان في أهل الجماعة فاسدون ظالمون. فإن فيهم أيضاً صالحين يعينونک عليهم، وإن کانت الجماعة باغية فاعتزلهم واخرج إلی غيرهم. قال اﷲ تعالی : ﴿اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اﷲِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيْهَا﴾،(1) ﴿اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ﴾ (2) – (3)
(1) النساء، 4 : 97(2) العنکبوت، 29 : 56
(3) أبو حنيفه، الفقه الأبسط (فی العقيدة وعلم الکلام من أعمال الإمام محمد زاهد الکوثری)، باب فی القدر : 606، 607
’’باغی اور دہشت گرد گروہ کے ساتھ جنگ کرو اس وجہ سے نہیں کہ وہ کفر پر ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ باغی ہیں اور واجب القتل ہیں۔ وہ معاشرے میں بدامنی پھیلانے کے ذمہ دارہیں۔ ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے کہ معتدل فکر لوگوں کی سنگت اختیار کی جائے اور (اگر اتفاقاً ایسی نوبت آجائے تو) معاشرے کو بد امنی اور فساد سے محفوظ رکھنے کے لئے حکومت کا ساتھ دیا جائے نہ کہ دہشت گرد باغیوں کا۔ فرض کریں کہ ہیئت اجتماعی میں جہاں کچھ لوگ اگر مفسد اور ظالم ہیں تو وہیں بعض لوگ نیکوکار بھی ہوتے ہیں۔ یہی نیک اور صالح لوگ ان گمراہ لوگوں کے خلاف آپ کی مدد کریں گے۔ بفرض محال اگر لوگوں کی اکثریت ہی مسلح بغاوت پر اتر آئے تو اہلِ حق کو چاہیے کہ وہ ان باغیوں سے علیحدگی اختیار کر لیں اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کی طرف ہجرت کر جائیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے : (کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں (کہیں) ہجرت کر جاتے؟) اور (بے شک میری زمین کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو)۔‘‘
جلیل القدر حنفی عالم دین ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ولا نری السَّيف علی أحدٍ مِنْ أمّةِ محمدٍ إلّا من وجَب عليه السّيف، ولا نريٰ الخروج علی أئمتنا وولاة أمورنا، وإن جاروا، ولا ندعو عليهم، ولا ننزع يداً من طاعتهم. طحاوی، العقيدة الطحاوية، رقم : 71، 72
’’ہم حکومت و سلطنت کے خلاف عسکری بغاوت کوجائز نہیں سمجھتے خواہ وہ خطا کار ہی ہو۔ اور نہ ہی ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں۔‘‘
امام ابن ابی العز الحنفی رحمۃ اللہ علیہ نے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی اسی عبارت کی شرح میں صحیح مسلم میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی حدیث نقل کی ہے، جس کے آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صریح حکم ہے کہ اگر امراء و حکام شرار اور لائق نفرت بھی ہوں، تب بھی جب تک مسلمان ہیں ان کے خلاف مسلح بغاوت اور خروج جائز نہیں۔
اسی طرح حکم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’ولا ینزعن یداً من طاعتہ‘‘ (تم حکومت کی حاکمیت اور اتھارٹی سے ہرگز ہاتھ نہ کھینچنا) کو بھی انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے۔ اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے امام ابن ابی العز الحنفی نے مزید لکھا ہے :
’’فقد دل‘‘ الکتاب والسنة علی وجوب طاعة أولی الأمر ما لم يأمروا بمعصيةٍ. فتأمل قوله تعاليٰ : ﴿اَطِيْعُوا اﷲَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم﴾(1) کيف قال : ﴿اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ﴾ ولم يقل : ’’وَاَطِيْعُوا أُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم‘‘. لأنّ أولی الأمر لا يفردون بالطاعة، بل يطاعون فيما هو طاعة اﷲ ورسوله. وأعاد الفعل مع الرسول صلی الله عليه وآله وسلم ، لأنّه هو معصومٌ. ’’وأولو الأمر‘‘ لا يطاع إلا فيما هو طاعة ﷲ ورسوله. وإما لزوم طاعتهم (وإن جاروا) فلأنه يترتب علی الخروج عن طاعتهم من المفاسد أضعاف ما يحصل من جورهم.(2)(1) النساء، 4 : 59(2) ابن أبی العز، شرح عقيدۃ الطحاوی : 282
’’کتاب و سنت کے احکامات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ حکومت وقت کی اس وقت تک اطاعت لازم ہے جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر غور کریں : ’’تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہل حق) صاحبان امر کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ’’تم رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ ’’تم صاحبان امر کی اطاعت کرو‘‘ کیونکہ اولو الامر اطاعت کے ساتھ منفرد اور خاص نہیں ہے بلکہ ان کی اطاعت اسی معاملے میں کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے تحت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فعلِ اطاعت کو صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دہرایا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں جبکہ حکام کی اطاعت اسی امر میں کی جاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہو۔ ہاں ان کے ظالم ہونے کے باوجود ان کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان کے مفاسد کے باعث ان کے خلاف مسلح خروج اور بغاوت، ان کی ناانصافیوں کی وجہ سے جنم لینے والی خرابیوں سے کئی گنا زیادہ خرابیوں کا باعث ہوگی (اس لئے بڑی تباہی اور نقصان سے بچنا لازم ہے)۔‘‘