اسلام کی انسانیت تمام تعصبات سے بالاتر ہے: پیغام پاکستان

مرتب : مفتی نور اللہ فاروقی
آدم و حوا کی اولا دہونے کے باوجو دنسل انسانی قدیم زمانے میں معاشی ضرورتوں کے لیے منتشر ہوتی رہی، یہ منتشر گروہ الگ الگ بستیوں، شہروں اور ملکوں میں رہنے لگے۔ اسی لیے ناگزیر طور پر نبی اور مصلح بھی قومی ہوتے نہ کہ عالم گیر اور بین الاقوامی اور ان کی تعلیمات بھی اپنی اپنی قوموں تک ہی محدود ہوتی تھیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ﴾ (الروم: ۴۷)
(اور ہم نے آپﷺ سے پہلے انبیاء کو صرف ان کی قوموں کی طرف ہی مبعوث کیا۔)
لیکن حضور اکرمﷺ کی بعثت کے بعد صورت حال بدل گئی۔ اب ضروری تھا کہ انسانی ذہن کے ارتقا میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کر دیا جائے اور انسان کو یہ درس دیا جائے کہ وہ اپنے دماغ، غور و فکر، شعور اور علم و ادراک سے کام لے۔ اس دور کے بین الاقوامی حالات کا تقاضا تھا کہ پوری دنیا کو اب جھنجوڑ کر یاد دلایا جائے کہ وہ سب آدم و حوا کی اولاد ہیں اور انہیں تنگ نظری، نسل پرستی اور ایسے ہی دیگر تعصبات سے نجات دلائی جائے اور تمام انسانی دنیا کے لیے ایسا کامل دین پیش کیا جائے جو زمان و مکان کے فرق سے بالا اور ذاتوں، گروہوں ، نسلوں اور طبقوں کے امتیاز سے بری ہواور بنی نوع انسان کو انفرادی و اجتماعی حقوق اور ذمہ داریاں عطا کر کے نوع بشری کی تخلیق کی اصلی غرض وغایت کو پورا کرنے کا انتظام کرے۔انہی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو ایک کامل اور جامع پیغام کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندے اور رسول محمد ابن عبداللہﷺ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
﴿ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَا۬فَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ﴾ (سبا: ۲۸)
(اے رسول ہم نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔)
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی اس عالمی حیثیت کی وضاحت کے ساتھ ساتھ آپﷺ کو پیغام الٰہی ساری دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی سونپی، چنانچہ ارشاد ہوا:
﴿ قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا ﴾(الاعراف: ۱۵۸)
(آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔)
گویا کہ آپﷺ سارے جہان کے لیے اللہ کے آخری رسول اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جامع پیغام اسلام کی صورت میں لے کر مبعوث ہوئے۔
اسلام کا مطلب امن اور سلامتی ہے اور اس میں داخل ہو کر ایک انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مکمل فرماں برداری میں دے دیتا ہے اور قرآن و سنت کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کرتا ہے۔اسلام وہ مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کے احکام رسول اللہﷺ پر ۴۰؍ سال کی عمر میں ۶۱۰ء میں مکہ میں نازل ہونے شروع ہوئے۔ یہ وہ دین مبین ہے جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا۔ تقریباً ہر قوم اور ہر علاقے میں اللہ کے پیغمبر اور رسول مبعوث ہوئے اور انھوں نے انسانیت کی فلاح کے لیے وحی پر مبنی پیغام الٰہی انسانوں تک پہنچایا اور سب نے ہی رسول اللہﷺ کی بعثت کی دعا کی تھی ، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیْھِمْﺚ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﯐ﺟ ﴾
(البقرہ: ۱۲۹)
(اے پروردگار ان (لوگوں) میں انہیں سے ایک پیغمبر مبعوث کر دیجیے جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان (کے دلوں) کو پاک صاف کیا کرے بیشک تو غالب اور صاحبِ حکمت ہے۔)
رسول اللہﷺ کا مشن سابقہ انبیاء کی طرح انسانوں کو سیدھے راستے کی طرف ایک جامع دعوت دینا تھا۔یہ وہی راستہ تھا جس پر ملت ابراہیمی قائم تھی، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
﴿قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍﹰ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاﺆ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾(الانعام: ۱۶۱)
(کہہ دو کہ مجھے میرے پروردگار نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے۔ (یعنی دین صحیح ) مذہب ابراہیم کا، جو ایک (خدا) ہی کی طرف کے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔)
جب دنیا علاقائیت سے عالمیت کے دور میں داخل ہونے والی تھی تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے بھیجے جانے والی عمومی ہدایات کو ایک جامع، کامل اور مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر اپنے آخری رسول محمد ابن عبداللہ ﷺ کے ذریعے پوری دنیا کے لیے بطور رحمت اور مکمل نعمت کے طور پر پیش فرمایا، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
﴿ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ﴾ (الانبیا: ۱۰۷)
(اور (اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہاں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے)
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْﺆ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَﺕ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِﺆ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِﺚ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ﴾(اٰل عمران: ۱۵۹)
(اے محمد (ﷺ)[ خدا کی مہربانی سے آپ ان لوگوں کے لئے نرم خُو واقع ہوئے ہیں اور اگر آپ سخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ تو ان کو معاف کردیں اور ان کے لئے (خدا سے) مغفرت مانگیں اور اپنے کاموں میں ان سے مشاورت کیا کریں اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ رکھیں بیشک اللہ تعالیٰ بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔)
رسول اللہﷺ کے اخلاق کو آپ کی دعوت کی کامیابی میں بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ نیکی کرتے اور ان سے نرم دلی سے پیش آتے۔ آپﷺ دلکش اور جرأت مندانہ انداز سے لوگوں کو اسلام لانے کی دعوت دیتے۔ عدل کو پسند کرتے، حق دار کو اس کا حق دیتے، ضعیف و کمزور اور مسکین کی طرف مودت و محبت اور الفت کی نظر سے توجہ فرماتے۔ آپﷺ کے انہی اخلاق سے متاثر ہو کر لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپﷺ نے عبادات، روحانیت، اخلاق اور معاملات کا ایک ایسا نظام پیش کیا جس کے ذریعے سے انسانیت کی حدود سے پست یا آگے بڑھ جانے والے انسانوں کو حقوق و فرائض کے نظام کے تحت انسانی حدود میں لاکر عزت و احترام اور وقار دیا گیا۔اسلام کی انسانیت تمام تعصبات سے بالاتر ہے اور یہ تمام انسانوں کے لیے احترام پر مبنی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰھُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰھُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا﴾ (الاسراء: ۷۰)
(اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔)
رسول اللہ ﷺ نے عبادات کا ایک ایسا جامع نظام دیا جس سے نہ صرف انسانیت کی روحانی تسکین ہوئی بلکہ تخلیق انسان کے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد بھی ملی۔ نمازوں اور روزوں کے ذریعے ہر مسلمان کا نہ صرف اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق مضبوط ہوا، بلکہ ان عبادتوں کے ذریعے ہر مسلمان کو انفرادی طور پر اپنے جسم، روح اور سوچ کو مضبوط، مربوط اور منضبط بنانے میں بھی مدد ملی۔ زکوٰۃ اور حج کے ذریعے مسلمان اللہ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں، یہ عبادتیں باہمی انسانی تعلقات کو نہ صرف مضبوط اور مستحکم بناتی ہیں، بلکہ ایک انسان کو دوسرے انسان کے لیے قربانی کا درس بھی دیتی ہیں۔ یہ عبادتیں امت مسلمہ کو ایک جسم کی مانند متحد کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں، جیسا کہ ارشا دباری تعالیٰ ہے:
﴿ اِنَّ ھٰذِھ۪ٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةًﺘ وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِﮫ ﴾ (الانبیاء:۹۲)
(یہ تمہاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو)
عبادات کے اسلامی نظام کا ہدف انسانوں میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کے جذبے کو جلا بخشنے کے بنیادی مقصد کے علاوہ ایسی اعلیٰ اقدار کی آب یاری ہے جو انسانی بھلائی اور نسلِ انسانی کی یکجہتی کو یقینی بنانے کے لیے حقوق و فرائض کے عادلانہ نظام، امن و سکون، معاشرتی ہم آہنگی، وعدوں کی پاسداری ، کمزوروں کےحقوق کا تحفظ اور تمام انسانوں کی عزت و آبرو کے تحفظ کی ضامن ہوں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسلام نے تو معاشرے میں برائی کا جواب برائی سے دینے کی روش کی بجائے بھلائی کے ذریعے برائی کے انسداد کے طریقے کو اپنانے کا حکم دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُﺚ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَھ۫ عَدَاوَةٌ کَاَنَّھ۫ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ﴾ (فصلت: ۳۴)
(اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔)
رسول اللہﷺ نے وحی پر مبنی اسلام کے عادلانہ نظام کو مدینہ کے پہلے معاشرے میں ۶۲۲ء میں میثاقِ مدینہ کے ذریعے نافذ کرنا شروع کیا۔چنانچہ نبی کریمﷺ نے ہجرت کے پہلے سال یثرب میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے اور وہاں کے باشندوں کے معاملات کو منظم کرنے کے لیے اہم ترین اقدامات فرمائے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں اوس و خزرج، مہاجرین اور غیر مسلم قبائل عرب رسول اللہﷺ کی سیاسی قیادت کے تحت متحد ہوگئے۔ اس صورت حال میں یہودِ مدینہ وہ واحد گروہ تھا جو اس اجتماعی نظام سے باہر تھا۔ آپﷺ نے انہیں بھی اس اجتماعی نظام میں شمولیت کی دعو ت دی تو ان کے لیے اپنی بقاء اور سلامتی کی خاطر اس سے انکار کرنا ممکن نہ رہا۔اس طرح انصار (اوس و خزرج)، مہاجرین (بنو امیہ و بنو ہاشم)، عرب قبائل اور یہود (بنو نضیر، بنوقریظہ اور بنو قینقاع) سمیت مدنی معاشرہ کی مختلف اکائیاں میثاق مدینہ پر متفق ہوگئے اور یہ میثاق نئی قائم شدہ ریاست کا دستور بن گیا۔اس دستور کی رو سے ریاست کے باشندوں کو سماجی سطح پر برابری کے حقوق دیے گئے، دفاعی سلامتی کو یقینی بنایا گیا اور مذہبی آزادی اور شخصی معاملات کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق طے کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اس کے لیے مناسب ماحول بھی فراہم کر دیا گیا۔ میثاق مدینہ تاریخ دساتیر کی وہ پہلی دستاویز ہے جو تحریر کی گئی۔ اس دستور کی ۵۲ دفعات ہیں اور یہ قانونی زبان کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ یہ دستو رنہ صرف مسلمانوں کے تحفظ کا باعث بنا بلکہ اس سے غیر مسلموں کو بھی برابر کے حقوق ملے؛ مثلاً یہودیوں میں بنو قینقاع، جو کہ سنار تھے، سب سے معزز سمجھے جاتے تھے، جب کہ بنو قریظہ چونکہ پیشے کے اعتبار سے چمار تھے، کم تر اور حقیر سمجھے جاتے تھے اور ان کی دیت بنوقینقاع اور بنو نضیر کے یہود کی نسبت آدھی تھی۔ رسول اللہﷺ نے اس ناانصافی کو منسوخ فرمایا اور بنو قریظہ کی دیت کو دوسرے یہودیوں کی دیت کے برابر قرار دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *