پیغام پاکستان متفقہ بیانیہ

ملک بھر کے علماء و مشائخ اورعوام دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں

اسلام میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کےنام پر دوسروں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کا عرصۂ حیات تنگ کر نے کی اجازت نہیں: علماء و مشائخ

مرتب : عبداللہ فاروقی
پیغامِ پاکستان کے نام سے تیار کردہ متفقہ دستاویز قرآن و سنت اور اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے دستور کی روشنی میں ریاست پاکستان کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ پیغام ریاستِ پاکستان کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسے لائحہ عمل کی بنیاد تجویز کرتا ہے جس کی بنا پر قراردادِ مقاصد میں دیے گئے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے ذریعے پاکستان کو قوموں کی برادری میں ایک مضبوط، متحد، مہذب اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ متفقہ دستاویز مملکت خداداد اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدّن کی برداشت، روحانیت، عدل و انصاف، برابری، حقوق و فرائض میں توازن جیسی خوبیوں سےمزّین معاشرے کی تشکیل جدید میں ممد و معاون ہوسکتی ہے۔ یہ دستاویز اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے ریاستی اداروں اور دینی مدارس کےوفاقوں وفاق المدارس العربیہ پاکستان ، تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان ، وفاق المدارس السلفیہ پاکستان ، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان اوررابطۃ المدارس پاکستان کی کاوشوں سے تکمیل پائی ہے۔ اس دستاویز کی تیاری میں اہم پاکستانی جامعات اور پاکستان کے بڑے دینی مدارس جیسے دارالعلوم کراچی، دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف، جامعہ بنوریہ کراچی، جامعۃ المنتظر لاہور، جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک، جامعہ محمدیہ اسلام آباد اور جامعہ فریدیہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، جید علماء اور مفتیانِ کرام کا تعاون بھی شامل ہے۔ پیغامِ پاکستان کا ابتدائی مسوّدہ ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کےمحققین نے تیار کیا ۔اس دستاویز میں علماءو مشائخ نے متفقہ طور پرقرار دیا ہے کہ دہشت گرد جہاد اور روایتی جنگوں میں فرق نہیں کرتے۔ جہاد کا مفہوم اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے اور ایک مسلمان کی شخصی زندگی سے لے کر سماجی زندگی کے تمام دائرے اس میں شامل ہیں اور معاشرے میں یہ عمل ہر مرحلہ پر رواں دواں رہتا ہے، جس کی ایک شکلِ قتال ہے، جو مخصوص حالات میں مسلمانوں کےنظام، یعنی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، جب کہ قرآن پاک نے روایتی جنگوں کے لیے حرب کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ قتال ایک استثنائی صورت حال ہے، جبکہ عمومی صورت امن و صلح کی ہے۔ فقہاء کی رائے میں قتال عام حالات میں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔اس وجہ سے ضروری ہے کہ قتال کی کمان حکومت کے ہاتھ میں ہو۔ میثاق مدینہ کی رو سے بھی جنگ کا اختیار رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں ہی تھا۔مسلمان فقہاء کے نزدیک کوئی جنگی کارروائی مسلمانوں کے حاکم یا اس کے مقرر کردہ فوجوں کے کمانڈر کی اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ مسلمانوں کے لشکر میں کوئی سپاہی مشرکین کے لشکر پر انفرادی حملہ یا مبارزہ بھی کمانڈر کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا۔ فقہاء کے خیال میں کوئی بھی جنگ حکمران کی اجازت کے بغیر شروع نہیں کی جاسکتی، صرف غلبہ حاصل کرنے کی غرض سے جنگ نہیں کی جاسکتی۔ اسلام میں قتال اور جنگ کی اجازت دینے کی مجاز صرف حکومت وقت ہے اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ جب ملک کے تحفظ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو اور دشمن جب بھی آمادہ ٔصلح ہو تو اس سے صلح کر لی جائے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِﺚ اِنَّھ۫ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (الانفال: ۶۱)
(اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے۔)
اسی بناء پر مسلمان فقہاء نے ہر قسم کی جنگ کو جائز قرار نہیں دیا اور اسلامی قانون کی رو سے طاقت حاصل کرنے کی جنگ، جیسا کہ آج کل دہشت گرد گروپ کر رہے ہیں، کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے، چاہے اس کے لیے دینی دلائل کا خود ساختہ سہارا ہی کیوں نہ لیا جائے ۔ بعض شدت پسند گروپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نام پر معاشرے میں اپنی سیاسی اغراض کے ذریعے طاقت حاصل کرتے ہیں۔ اس موقع پر وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی کے اسلامی حکم کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی معاشرتی تعلیم میں اہلِ حل وعقد کے ذریعے نہی عن المنکر لازمی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کچھ گروپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کےنام پر قانون کو ہاتھ میں لے کر دوسروں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کا عرصۂ حیات تنگ کر دیں۔ اسی طرح کسی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ معصوم مسلمانوں کے خلاف کفر کا فتویٰ دے کر انہیں واجب القتل قرار دے دے اور عام لوگوں کو اشتعال دلا کر ان سے معصوم لوگوں کا قتل کرائے اور مرضی کے خودساختہ فیصلے لاگو کرے ۔اس قسم کے رویے ریاست میں فتنہ و فساد کا باعث بنتے ہیں۔ اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا منہج طے کر دیا ہے کہ برائی کو تبدیل کرنے کے لیے قانون کے مطابق قوت کا استعمال صرف بااختیار ریاستی اداروں کا حق ہے اور کسی شخص کو اس ضمن میں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔اسلامی معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کے لیے رسول اللہ ﷺ کے دور میں قائم کیے جانے والے مواخات و معاملات جیسے اداروں کے احیاء اور تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اسلامی تعلیمات واضح ہیں کہ طاقت کے نظریے کی بنیاد پر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے مذہبی نعروں کا استعمال درست نہیں ہے۔بعض حلقوں میں اسلام کے نام سے قومی معاہدات اور وطنی میثاق کی مخالفت کی جاتی ہے بعض گروہ اس سلسلہ میں جغرافیائی حد بندی کے بھی قائل نہیں چنانچہ وہ کسی دوسرے ملک میں لشکر کشی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ رویہ اسلامی تعلیمات کی رو سے عہد شکنی میں آتا ہے۔اسلامی تعلیمات میں میثاق اور عہد کو نہایت بنیادی اہمیت حاصل ہے جس کی پاسداری کا حکم قرآن و سنت میں بڑے اہتمام کے ساتھ دیا گیا ہے۔
﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ﴾ (المائدہ: ۱)(اے مومنو! اپنے عہد کو پورا کیا کرو۔)﴿ وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا ﴾(النحل: ۹۱)
(اور جب تم اللہ سے عہد کرو تو اس کو پورا کرو اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو ان کو مت توڑو۔)
احادیث میں عہد شکنی کو غدر سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کو اردو کی مروّجہ زبان میں غداری بھی کہا جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ذکر ہے کہ قیامت کے روز ہر عہد شکن کی عہد شکنی کی سنگینی کے مطابق اس کے پیچھے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا تاکہ اس کے جرم کی سنگینی مشتہر ہو۔قرآن حکیم نے میثاق و عہد کی اہمیت کو جس حد تک اجاگر کیا ہے، اس سے اسلام کے انسانیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے نقیب دین ہونے کی نقاب کشائی ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍۭ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ﴾ (الانفال: ۷۲)
(اور اگر وہ تم سے دین میں مدد چاہیں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازمی ہے سوائے اس قوم کے جس کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہو۔)
گویا اگر ہم سے تمہارے دینی بھائی مدد طلب کریں تو ہم پر ان کی مدد لازم ہے، لیکن اگر وہ اس قوم کے مقابلہ پر مدد مانگیں جن کے ساتھ ہمارا میثاق و معاہدہ ہے تو اس کی اجازت نہیں ۔ لہٰذا ان آیات کی رو سے اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے عمرانی میثاق کا تقاضا ہے کہ اس کے شہری بہر صورت اس میثاق کو ترجیح دیں کیونکہ وہ کسی بھی بیرون ملک گروہ کی مدد کے نام پر اس میثاق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسلامی احکام کےمطابق جنگ اور صلح کے معاملات میں اسلامی ریاست پر بین الاقوامی معاہدات کی پاسداری لازمی ہے۔ آج کے دور میں پاکستان نے کئی بین الاقوامی معاہدے کیے ہوئے ہیں جن کا مقصد بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہے، نیز شریعت اسلامی کے پانچ بنیادی مقاصد بھی ان حقوق کی پاسداری کی ضمانت دیتے ہیں۔ ان میں جان، مال، دین، عزت آبرو اور نسل کی حفاظت شامل ہیں۔ اسی بنا پر بین الاقوامی معاہدات اور احکام شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معصوم لوگوں کے جان و مال پر حملہ شریعت اور قانون کی رو سے جرم ہے۔ دستور پاکستان 1973ء اسلامی اور جمہوری ہے اور یہ پاکستان کی تمام اکائیوں کے درمیان ایسا عمرانی معاہدہ ہے جس کو تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کی حمایت حاصل ہے، اس لیےاسلامی جمہوریۂ پاکستان کے دستور کے تقاضوں کے مطابق پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس دستور کی موجودگی میں کسی فرد یاگروہ کو ریاستِ پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف کسی قسم کی مسلح جدوجہد کا کوئی حق حاصل ہے۔ نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی ،لسانی، علاقائی، مذہبی، مسلکی اختلافات اور قومیت کے نام پر تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں احکام شریعت کے خلاف ہیں اور پاکستان کے دستور وقانون سے بغاوت اور طاقت کے زور پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک قومی اور ملی جرم بھی ہے۔ دفاع پاکستان اور استحکام پاکستان کے لیے ایسی تمام تخریبی کارروائیوں کا خاتمہ ضروری ہے، اس لیے ان کے تدارک کے لیے بھرپور انتظامی ،تعلیمی، فکری اور دفاعی اقدامات کیے جائیں گے۔ دستور پاکستان کے تقاضوں کے مطابق پاکستانی معاشرے کی ایسی تشکیل جدید ضروری ہے جس کے ذریعے سے معاشرے میں منافرت، تنگ نظری، عدم برداشت اور بہتان تراشی جیسے بڑھتے ہوئے رجحانات کا خاتمہ کیا جا سکے اور ایسا معاشرہ قائم ہو جس میں برداشت و رواداری ، باہمی احترام اور عدل و انصاف پر مبنی حقوق وفرائض کا نظام قائم ہو ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *