
سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس کے ذریعےملک دشمن قوتیں اور انتہا پسند گروہ بہت سی غلط فہمیاں پھیلا کر نوجوانوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
ایک جان کی حفاظت کرنیوالا پوری انسانيت کا محافظ اور حامی ہے ۔ الله رب العزت دنیا والوںکے حاميوں کا حامی ہے اس کے قاتلوں کا محافظ نہیں
عبداللہ ترمذی
خبر یہ ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ نے سوشل میڈیا پر ملک اور اس کے اداروں کے خلاف مہم کے معاملے پر خصوصی ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ٹاسک فورس میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے افسران شامل ہوں گے۔سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف مہم روکنے کے لئے ٹاسک فورس پولیس اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کرے گی۔اس بات میں دورائے نہیں کہ سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس کے ذریعےملک دشمن قوتیں اور انتہا پسند گروہ بہت سی غلط فہمیاں پھیلا کر نوجوانوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں، القاعدہ نے پولیس کو نشانہ بنانے پر اکسانے والا ایک مضمون شائع کیا، اس میں کچھ فکری مسائل پر مبنی باتیں ہیں جو فوج اور پولیس کا خون بہانے کے ان کے خونی طرز عمل کو جائز قرار دیتی ہیں۔اس کیلئے جو جواز گھڑا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ پولیس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صلیبی اور لادین و سیکولر گستاخوں کی محافظ ہے۔ یہ پولیس مسلمان پردہ دار خواتین کی بے حرمتی، ان کو گرفتار کرنے اور ان پر تشدد کرنے جیسے جرائم کی مرتکب ہے ۔ليکن ان باتوں پر يقين کرنے سے پہلے ہميں اپنے آپ سے يہ پوچھنا چاہئے کہ يہ بات کس حد تک درست ہیں؟ کيا قانون نافذکرنے والی يہ پولیس اپنا کام کر رہی ہے یا یہ محض شریعت کی دشمن ہے؟ ۔ کیا یہ ایک اسلامی ملک کی پولیس نہیں ، کیا یہ مسلمان نہیں ؟ کیا يہ الله کا نام لے کر اپنے ملک اور معاشرے کی حفاظت کے لئے اپنے گھروں سےنکلتے ہیں يا مظلوم لوگوںکانا حق خون بہانے کی غرض سے؟۔ اس صورتحال كکو واضح کرنے کے لئے چند باتیں جاننا نہایت ضروری ہیں۔ جس شخص نے کلمہ طیبہ پڑھا وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا اور مسلمان بن گیا، اس کلمہ گو مسلمان کو کافر سمجھنا ناجائز ہے، قرآن و حدیث اس بات کی اجازت کسی کو نہیں دیتا۔ اس کلمہ کو پڑھنے سے انسان اسلام میں داخل ہوجاتا ہے اور جہنم کی آگ سے بچ جاتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے لا الہ الا الله کہا وہ جنت میں داخل ہو گا” أخرجه أحمد]۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ حرقہ کی طرف (مہم پر) بھیجا۔ ہم نے ان لوگوں کو صبح کے وقت ان کے پانیوں پر انہیں جالیا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور ایک انصاری آدمی قبیلہ جہینہ کے ایک شخص تک پہنچے اور جب ہم نے اسے گھیرلیا تو اس نے کہا ”لا الہ الا ﷲ“۔ انصاری صحابی نے تو (یہ سنتے ہی) ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنا نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا۔ جب ہم مدینہ آئے تو اس واقعہ کی خبر نبی ﷺ تک پہنچی۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:’’اسامہ! کیا تم نے کلمہ لا الہ الا اﷲ کا اقرار کرنے کے بعد بھی اسے قتل کر ڈالا؟‘ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اس کا اقرار کیا تھا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: کیا تم نے اسے ’’لا الہ الا ﷲ‘‘ کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا؟‘‘آپ ﷺ یہ جملہ بار بار مجھ سے کہتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ کاش میں اس دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا۔ [البخاري ومسلم]۔ اور الله رب العزت نے فرمايا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَٰلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا﴾ [النساء: 94]
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تو اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان وا لانہیں*۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی نعمتیں ہیں۔ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہٰذا تم ضرور تحقیق وتفتیش کر لیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے”۔
دنيا کے تمام اديان ميں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی ہر تعليم میں دہشت اور بربريت کے بجائے شفقت اور رحمت کا عظيم پيغام پنہاں ہے۔ تکفیر کا مسئلہ ايک نہايت سنگین مسئلہ ہے ،کیونکہ یہ مسلمانوں کے خون، جان، مال اور حقوق کی خلاف ورزی اور بے حرمتی سمجھا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کہ:
﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ [النساء 93] “
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہہ کر پکارے تو دونوں میں سے ایک پر کفر آ جائے گا”[صحيح مسلم]۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : “تمھارے بارے میں مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ ایک آدمی قرآن پڑھے، یہاں تک کہ جب اس پر قرآن کی چمک دمک نظر آنے لگے اور وہ اسلام کا معاون وحامی بن چکا ہو، تو اس کو اللہ کی مشیت کے مطابق کسی اور چیز سے بدل دے، اس سے عليحدگی اختیار کر لے، اسے پس پشت ڈال دے، اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑے اور اس پر شرک کی تہمت لگائے۔” میں نے کہا : اے اللہ کے نبی! دونوں میں سے کون زیادہ شرک کا حق دار ہے، تہمت لگانے والا یا وہ جس پر تہمت لگائی جائے؟ تو فرمایا : “بلکہ تہمت لگانے والا”۔ [رواه ابن حبان]۔
اس لئے کسی مسلمان کو قتل کرنا جائز نہیں، بلکہ کسی غیر مسلح اور غیر محارب (Non-Combatant) انسان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ تو اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق غیر محارب افراد یا ممالک کے ساتھ جنگ نہیں کی جائے گی، خواہ ان کے ساتھ نظریاتی اختلاف کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اسلام نے ایسے غیر محارب لوگوں کے ساتھ پرامن رہنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اسلام خواہ مخواہ جنگ یا تصادم کو پسند نہیں کرتا۔ وہ ہر انسانی جان کا احترام کرتا ہے اور انسانی خون کی حرمت کی پاسداری کا ہر سطح پر پورا پورا اہتمام کرتا ہے۔ اسی طرح بلا امتیاز قتل عام کی ممانعت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا يَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِيَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَيْهِمْ اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ” [الممتحنة: 8]
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے‘‘ ۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’زخمی کو قتل نہ کیاجائے، نہ قیدی کو قتل کیا جائے اور نہ بھاگنے والے کا تعاقب کیا جائے۔‘‘ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی اہمیت خانۂ کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیاہے۔امام ابن ماجہؒ نقل کرتے ہیں،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کاطواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبوکتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے ۔ ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رہنا چاہئے۔
ان تمام باتوں سے واضح ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے، قتل و غارت گری کا مذہب نہیں۔ بلکہ شریعت اسلامیہ کی رو سے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں،ان کے مقدسات اور ان کی جان و مال کا تحفظ بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اسلام پر اگر سرسری نظر دوڑائی جائے تو اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات پر مبنی پُر امن مذہب دکھائی دیتا ہے۔ بے شک اسلام ہمیں امن اور بھائی چارگی کا درس دیتا ہے۔ امانت اور دیانت داری کے اسباق سکھاتا ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، اسلام خونریزی کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام ناحق اور حرام مال کھانے کا مذہب نہیں ہے۔ اسلام قتل و غارت گری کا نام نہیں ہے بلکہ ایک امن پسند مذہب ہے کیونکہ اسلام کا مطلب ہی سلامتی اور امن والا ہے ۔ فوج اور پولیس اہلکار ہمارے بھائی اور بیٹے ہیں اور ہماری حفاظت کا خیال رکھتے ہیں ۔عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اور ایک وہ آنکھ جس نے راہ جہاد میں پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری ہو“۔
افسوس ہے کہ دہشت گردی کے علمبرداروںنے فہمِ شریعت کا ترازو اُلٹ دیا، انہوں نے قتل کو ایک اصول و قاعدہ بنا لیا۔ ان کا فقہ ناقص فقہ ہے جو وہم، مبہم خیالات اور غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ وہ انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں جنہوں نے معصوم لوگوں، فوج اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور مسلمانوں کے خلاف خروج (بغاوت) کی وہ دین اور دنیا سے محروم ہو گئے۔ ايک جان کو قتل کرنے والا پوری انسانيت کا قاتل ہے، اور اس کی حفاظت کرنے والا پوری انسانيت کا محافظ اور حامی ہے ۔ الله رب العزت دنيا والوں كکے حاميوں کا حامی ہے اس کے قاتلوں کا محافظ نہیں۔
جس طرح دہشت گرد ، انتہا پسند اور ملک دشمن قوتیں نسل نو کو سوشل میڈیا کے ذریعے ورغلا رہے ہیں ، ہمیں اس مہم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا ہوگا۔ نسل نو کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہوگا۔ والدین پر سب سے پہلی ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں کہیں وہ جانے انجانے میں ملک دشمن قوتوں کے ناپاک عزائم کا ایندھن تو نہیں بن رہے ، ریاست کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی تاکہ ہمارے اداروں کا مورال ڈاؤن نہ ہو۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے3ماہ کےدوران سوشل میڈیا ٹرینڈزکی رپورٹ مرتب کرلی، جس میں حکام نے بتایا کہ سوشل میڈیاپر بدامنی پھیلانے والے2836پیجز اور سائٹس بلاک کردیں ہیں۔ سی ٹی ڈی حکام کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر متحرک 2 نئی تنظیموں کی نشاندہی بھی کی گئی ، ٹوئٹرپر چلنے والے 17 سیاسی ٹرینڈز حساس ہیں، سیاسی ٹرینڈز میں عام انتخابات اور اداروں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا کہ سوشل میڈیاپر ملک دشمن ٹرینڈنگ زیادہ تر بیرون ملک بیٹھے افراد نے کی، ٹرینڈنگ میں پنجاب پولیس اور اعلی شخصیات پر بے جا تنقید کی گئی ، فرقہ ورانہ بنیادوں پرچلنے والے 9 ٹرینڈز کی نشاندہی کی گئی۔ حکام کے مطابق قوم پرستی، بلوچستان اور گوادر سے متعلق 10 ٹرینڈز کو مانیٹر کیا گیا، ٹرینڈ کے ذریعےبدامنی پھیلانےوالوں کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔یہ سلسلہ یہاں نہیں رکنے والا ، اب وفاقی وزارت داخلہ نے سوشل میڈیا پرملک اوراس کے اداروں کے خلاف مہم کے معاملے پر خصوصی ٹاسک فورس بنانے کا جو فیصلہ کرلیاوہ اس طوفان بدتمیزی کے آگے بند باندھے گا۔