پیکا ایکٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر پھیلانے والے کو 3 سال قید یا 20لاکھ روپے جرمانہ ہوگا
ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہو گی ،سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری، صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی

اسلم خان وزیر
پیکا ایکٹ، ڈیجیٹل نیشن پاکستان ترمیمی بل 2025 ءقومی اسمبلی میں پاس ہو چکا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو 3 سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔حکومت کی جانب سے پارلیمان میں پیش کیے جانے والے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 ءکے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جبکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجازبھی ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ ترمیمی بل کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا ایکس آفیشو اراکین ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔حکومت نے اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، ایکس آفیشو اراکین کے علاوہ دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجنیئر بھی شامل ہوں گے جبکہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔ بل کے مطابق چیئرمین اتھارٹی سوشل میڈیا پر کسی بھی غیر قانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت دینے کا مجاز ہو گا جبکہ چیئرمین اور اراکین کسی دوسرے کاروبار میں ملوث نہیں ہوں گے۔نئے ترمیم کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے، اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف، شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔ اتھارٹی آرمڈ فورسز ، پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی، پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیا جاسکے گا۔ ترمیمی بل کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیے جا سکیں گے، ترمیم کے تحت سوشل میڈیا شکایت کونسل قائم کی جائے گی، سوشل میڈیا شکایات کونسل 5 اراکین اور ایک ایکس آفیشو رکن پر مشتمل ہو گی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی جانب سے ہدایات پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی ٹربیونل سے رجوع کرے گی۔ ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجنیئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔ ترمیمی بل کے مطابق ٹربیونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں 60 دنوں میں چیلنج کیا جا سکے گا، فیک نیوز پھیلانے والے شخص کو تین سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی، ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہو گا، تعیناتی 3 سال کے لیے ہو گی۔ اس کے علاوہ، اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کے پاس مساوی پوسٹ کے پولیس افسران کے اختیارات ہوں گے، نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ تحلیل کر دیا جائے گا۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا موجودہ دور کی ایسی ترقی ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں۔ پل پل کی خبر بلاتاخیر دنیا کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے میں پہنچنا ایک ایسا فائدہ ہے جس نے ہم سب کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے مضمرات بھی ہیں جن کی روک تھام کسی ادارے سے زیادہ خود ہمارے ہاتھوں میں ہےلیکن ابھی تک ہماری یعنی صارفین کی جانب سے ایسا کوئی ذمہ دارانہ کردار سامنے نہیں آیا جس نے سوشل میڈیا پر فیک نیوز ، توہین آمیز لٹریچر اور اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کے سلسلے کے آگے بند باندھا ہو۔سوشل میڈیا کی مقبولیت سے قبل سیاست ہو یا معاشرت،ہر سوبرداشت اور رواداری کے اصول نظر آتے تھے۔ اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان اختلافات ضرور تھے، لیکن باہمی عزت و احترام کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی تھی۔ مخالفین کے خلاف مناسب زبان استعمال ہوتی تھی۔ ٹانگیں کھینچی جاتی تھیں نہ پگڑیاں اُچھالی جاتی تھیں۔ اختلافات کا اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اظہار کیا جاتا تھا۔ پھر یہ سنہرا دور رخصت ہوا اور پچھلے کچھ سال میں عدم برداشت کے ایسے جھکڑ چلے کہ اس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔لوگ اس اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کے لتے لینے لگے اور انتہائی نامناسب بلکہ گھٹیا زبان استعمال کرنے لگے جسے اسلام میں رحمت کہا گیا ہے ، لیکن ہم نے اسے زحمت بنا ڈالا۔ پگڑیاں اُچھالی جانے لگیں۔ نازیبا مہمات چلائی جانے لگیں۔یہ مہمات صرف سیاسی و مذہبی طور پر ہی نہیں ، بلکہ اپنے ہی ملک کے خلاف چلنے لگیں۔ اپنے ملک کے اداروں کے خلاف چلنے لگیں، عدلیہ ، فوج اور قومی سلامتی کے ادارے کسی کو اس ناپاک مہم سے بخشا نہیں گیا۔ اور یہ سب کچھ سوشل میڈیا کے ذریعے ہوتا رہا۔ جھوٹ در جھوٹ کی بھرمار کردی گئی ہے۔ پاکستان اور اداروں کے خلاف من گھڑت باتیں سوشل میڈیا پوسٹوں میں پیش کی جاتی ہیں۔ ملک و قوم کی سلامتی کے ضامن ادارے کے خلاف تمام حدیں پار کر ڈالی گئی ہیں۔اس وقت جب پاکستان کو جغرافیائی ، تزویراتی ، سرحدی ، سلامتی ، داخلی امور پر سنگین چیلنجز کا سامنا ہے ۔ ملک کو محض دہشت گردی و شدت پسندی ہی نہیں ففتھ جنریشن وار فیئر کی شکل میں ڈیجیٹل دہشت گردی جیسی خوفناک جنگ کا بھی سامنا ہے ۔ صحافت کے مجموعی کردار اور ذمہ داریوں میں بے انتہا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ایسے حالات میں صحافت سے منسلک افراد پرنٹ ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کی اصلاحات و فعالیت کو سامنے رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار کا تعین نہیں کریں گے تو ملک کو داخلی ، خارجہ معاملات میں ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ دیکھا بھی جا رہا ہے کہ بسا اوقات صحافتی اداروں ، اہل صحافت اور یوٹیوبرزکی جانب سے غیر محتاط رویے کی وجہ سے قومی مفادات ، معاشی نظام ، سیاسی و جمہوری عمل ، سماجی امور اور عام آدمی کے حقوق پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اس میں دورائے نہیں کہ حکومتوں کی طرف سے صحافتی اداروں اور اہل صحافت کیلئے متعارف کرائے جانے والے قوانین کا مقصد صحافت کو قومی مفاد میں ترتیب دئیے جانے والے ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں ڈیجیٹل دہشت گردوں کی حقیقت سے محب وطن عوام بخوبی واقف ہیں، جن کا صحافت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن وہ اپنے عمل سے صحافت کو بھی بدنام کررہے ہیں۔عوام ان کے پروپیگنڈوں میں نہیں آتے اورریاست پاکستان اور اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان دشمن قوتیں جو ایک طویل عرصے سے وطن عزیز کو عدم استحکام کرنے کیلئے سازشوں میں مصروف تھیں اور ان کی ہر سازش کو ریاست پاکستان نے ناکام بنایا ان کیلئے بھی سوشل میڈیا ایک خوفناک ہتھیار بن گیا، بھارت اور دیگرپاکستان دشمن قوتوں نے سوشل میڈیا پرسوشل میڈیا پر پاکستان مخالف مہم چلائی ، جعلی اکاؤنٹ بنا کر فیک نیوز اور منفی پروپیگنڈا کا سلسلہ شروع کیا ۔ پھر اس مقصد کیلئے انہوں نے پاکستان کے ہی کچھ نمک حراموں کو خریدا اور ان کے ذریعے ڈیجیٹل دہشت گردی کا بازار گرم کیا ۔ عادل راجہ اور حیدر مہدی ایسے بھگوڑے انہیں پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوںکا کھلونا بن کر ریاست پاکستان کے خلاف شرانگیزی پھیلانے لگ گئے ۔ ہمارے بے شمار نوجوان جانے انجانے میں ان ڈیجیٹل دہشت گردوں کی وطن عزیز کے خلاف اس ناپاک مہم کو آگے بڑھانے لگے۔رہی رسہی کسرخود پرست سیاست دانوں نے پوری کردی ، ایسے سیاستدانوں نے ان نوجوانوں کو جو سوشل میڈیا کے دلدادہ تھے، اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے میڈیا سیل تو بنائے ہی ہوئے تھے، ساتھ ہی سوشل میڈیا سیل بھی بنادیے اور نوجوانوں کو ٹاسک سونپ دیے کہ آپ نے اپنی مخالف جماعتوں کی کردارکشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی، صرف مخالف جماعتوں تک ہی بات محدود نہ رہی ، پاکستان کے قومی اداروں کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس بے لگام سوشل میڈیا کی ہیجان خیزیوں کا نظارہ ہم گزشتہ چند برسوں سے ملاحظہ کررہے ہیں۔ نتیجے میں معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اس کو سدھارنے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا، کیونکہ ٹیکنالوجی کی جدت میں آئے روزاضافہ ہورہا ہے تو مستقبل میں خدا جانے اور کیا کیا چیزیں منظر عام پر آجائیں جس سے نوجوان کس سمت میں جائیں گے اس پر کوئی رائے دینا قبل از وقت ہے لیکن اس مسئلے کو لے کر ہر محب وطن شہری شدید اضطراب کا شکار ہے۔سوشل میڈیا کا ایک نقصان یہ ہوا کہ اس کی زد میں نوجوان نسل تو آہی چکی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس میں ہر عمر اور ہر طبقے کے انسانوں نے اپنی اپنی پسند کے مطابق چیزیں تلاش کرلیں۔ آپ اپنے اردگرد ملاحظہ کیجیے آپ کو ہر شخص (مرد، عورت، نوجوان، بچے) انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ گھروں، بازاروں، سکول و کالج، مذہبی درس گاہوں، حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی (جہاں پر طبی عملے کی ذرا سی غفلت سے مریضوں کا نقصان ہوسکتا ہے) میں بھی عملہ آپ کو انٹرنیٹ اور موبائل استعمال کرنے میں مشغول نظر آئے گا۔ پھرغیر اخلاقی مواد دیکھنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ایک مسئلہ ہے، جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں نئی نسل میں ہیجان خیزی میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوان گلوبل ولیج میں اپنے آپ کو محسوس کرتے ہوئے اپنا موازنہ مغربی ممالک سے کر رہے ہیں۔ اب ایک ایسی پود تیار ہوچکی ہے جو مغربی ملکوں کے نوجوانوں کی تقلید میں اپنی مشرقی و اسلامی روایات کو یکسر بھلا کر ہر وقت خیالی دنیا میں کھوئے رہتی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو نہ صرف اپنے پہناوے بلکہ کھانے پینے کی چیزوں میں بھی مغربی ثقافت کی تقلید کررہے ہیں۔اس سارے عمل میں ایک بات کھل کر سامنے آئی کہ روایتی دہشت گردی کے برعکس ڈیجیٹل دہشت گردی زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہے، ملک دشمن عناصر اور غیر ملکی اداروں کے اشتراک نے ڈیجیٹل دہشت گردی کو مزید پیچیدہ اور خطرناک بنا دیا گیا ہے۔ ہماری قومی وحدت کو توڑنے کی کوشش کی گئی ۔ معاشرے کے تمام سنجیدہ طبقات اور محب وطن شہری اس صورتحال سے پریشان تھےا ور اس طوفان بدتمیزی کے آگے بند باندھنے کا مطالبہ کرتے تھے ۔ آخر کار حکومت نے اس کا توڑ تلاش کرہی لیا۔ اسی مقصد کے پیش نظر پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 ء تیار کیا گیا ہے جسے اب قومی اسمبلی کےبعد سینٹ سے پاس کرایا جائے گا اور پھر صدر مملکت اس پر دستخظ کر دیں گے جس کے فوری بعد یہ بل ایکٹ بن کر نافذالعمل ہوجائے گا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو 3 سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔جو صحافتی تنظیمیں اس بل پر معترض ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ قانون سوشل میڈیا کیلئے بننے جارہا ہے اس سے ورکنگ صحافیوں کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس سے صحافت اور اہل صحافت کو تقویت و تحفظ ملے گا۔